Naseem minai
Gazal
غزل
بے سبب مسکرائے تو میں کیا کروں،دل پہ بجلی گرائے تو میں کیا کروں
یہ خلاف توقع میرے سامنے،کوئی بے پردہ آئے تو میں کیا کروں
جام و ساغر کی عظمت کے احساس کو،میرے دل سے مٹائے تو میں کیا کروں
اپنی نظروں سے جب ساقئ میکدہ بے تقاضا پلائے تو میں کیا کروں
عشق بھی اپنی فطرت سے مجبور ہے،حسن بھی اپنی فطرت سے مجبور
میں اسے یاد رکھو تو وہ کیا کرے،وہ مجھے بھول جائے تو میں کیا کروں
آپ کی بے نیازی گوارا مجھے،لیکن اتنا تو مجھ کو بتا دیجیے
آپ کی یاد بھی آپ ہی کی طرح،مجھ سے دامن بچائیے تو میں کیا کروں
شمع کہتی ہے جلنا میرا کام ہے،میرا مقصد کسی کو جلانا نہیں
خود میری لو میں جلنے کی خاطر اگر،کوئی پروا نہ آئے تو میں کیا کروں
کہہ رہی ہے چمن میں بہار چمن،دونوں قانون قدرت سے مجبور ہیں
شبنم آنسو بہائے تو میں کیا کروں،پھول اگر مسکرائے تو میں کیا کروں
میں بھی ترک تعلق کا قائل نہیں،وہ بھی ترک تعلق پہ مائل نہیں
اے نسیم ان کا دامن میرے ہاتھ سے سے خود بخود جھوٹ جائے تو میں کیا کروں
نسیمؔ مینائ
شاہ جہانپور
Seyad faizul murad
13-Sep-2022 09:17 AM
کیا بات ہے بہت خوب وااااہ
Reply